تیرے نام

آج سے کوئی پچاس ساٹھ سال بعد جب میں دنیا کے کسی پرسکوں کونے میں اپنے کپکپاتے ہاتھوں میں چائے کا کپ پکڑے بیٹھا ہوں گا

اُس وقت جب میرے سارے سر کے بال سفید ہوچکے ہونگے اور چہرہ جُھریوں سے بھرچکا ہوگا



اُس وقت جب میری یاداشت کمزور ہوچکی ہوگی اور مجھے لوگوں کے نام تک بھول جائیں گے

وہ وقت جب میرا ماضی ہی میری زندگی کا گواہ ہوگا اور مستقبل کا کوئی اتہ پتہ نہ ہوگا

وہ وقت جب مجھے کسی کی پکار تک سنائی نہ دے گی اور میری بینائی کمزور پڑجائے گی

تب اِس کی تصویر میرے آنکھوں کے سامنے دھندلی پڑجائے گی میرا دماغ اِس کے چہرے کے خدوخال واضح کرنے سے قاصر ہوگا


میں نہیں چاہتا کہ اس وقت میرے دل میں یہ آرزو باقی رہے کہ میں اظہارِ محبت نہیں کرپایا, میں اسے اُس وقت نہ پکار سکا جب میری آواز جوان تھی

میں اسے دیکھ نہ سکا جب میری بینائی صحیح تھی اور میں اس کا لمس محسوس نہ کرسکا اگرچہ میرے ہاتھ نہیں کانپتے تھے

میں اسکی سانسوں کی گرمی کو اپنے اندر جذب نہ کرسکا اگرچہ میرے ہونٹ بےتاب تھے

میں اسے اپنی بانہوں میں اٹھا نہ سکا اگرچہ میرا جسم طاقتور تھا۔


لہذا میں ابھی سے کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے تمہارا ہات


ھ پکڑ راتوں کو آوارہ گردی کرنی ہے، مجھے تمہاری گود میں سر رکھ کر اپنے بالوں میں تمہاری انگلیوں کا لمس محسوس کرنا ہے، مجھے تمہاری سرگوشیاں سننی ہیں، مجھے تمہاری سانسوں کو اپنی سانسوں میں جذب کرنا ہے، مجھے اپنے شب و روز تمہاری ہانہوں میں بسر کرنے ہیں، مجھے تمھارے ہونٹوں اور گالوں کا اسیر بننا ہے۔میں ابھی سے کہنا چاہتا ہوں مجھے تم سے محبت ہے۔

Comments