بارھا کوشش کی کہ جب بھی گھر سے نکلوں تو اس ڈَگر پر جانے سے اجتناب بَرتوں جس سے جب بھی گزرا تو اس کَسک نے جنم لیا جس وجہ سے میں نے تمہیں دل دیا تھا
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک انمول چیز کو میں نے بے مُول دوسرے کے سپرد کر دیا
بارھا کوشش کی کہ ان دَریچوں سے دور رہوں جنہیں دیکھ کر میری پلکوں میں ستارے چمکتے ہیں
بارھا کوشش کی کہ ان راہوں پہ نا جاؤں جہاں خزاں رسیدہ پتے مجھے اپنی وفا کی ناکامی کا احساس دلاتے ہیں اور جب ان پتوں پر چلتا ہوں تو ان کی چرچراہٹ مجھے زندگی زمین میں دھنستی ہوئی محسوس ہوتی ہے
بارھا کوشش کی کہ ذہن کے ان دریچوں کو بند کر دوں جہاں سے تیری یاد کے جھرونکے داخل ہو کر مجھے مضطرب کرتے ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ میں انسان ہوں ان سے کیسے پیچھا چھڑا سکوں گا آخر مجھے بھی تو محبت نے ہی جنم دیا تھا اور محبت ہی میری مِیراث میں شامل ہے
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید میں محبت کیلئے پیدا ہوا تھا اور محبت کیلئے ہی مر جاؤں گا پھر کیونکر یہ ممکن ہو کہ میں اس حقیقت سے آنکھیں بند کر لوں
بارھا کوشش کی تمہیں نا پکاروں
بارھا کوشش کی کہ تمہیں صدا نہ دوں
محبت نے کبھی مجھے تمہاری راہ سے ہٹنے نہیں دیا میں جب اپنا آخری کھلونا ٹوٹ جانے کے غم میں تمہیں دیکھنے سے گُریز کی سڑک پر عین درمیان میں بھاگ رہا تھا میں عجیب تھا اور میں نے اپنے کسی پرانے زخم سے ٹھوکر کھائی تھی میرے تمام کے تمام نئے زخم منہ کے بَل گرے اور بے اختیار میرے منہ سے تمہارا نام نکلا لیکن میں تمہیں کبھی بد دعا نہیں دے سکا شاید میں تم سے محبت کرتا رہوں گا چاہے میرے درد ہر بار مجھے بے سہارا تمہاری محبت کی راہ پر پھر سے کیوں نا چھوڑ جائیں
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک انمول چیز کو میں نے بے مُول دوسرے کے سپرد کر
بارھا کوشش کی کہ ان دَریچوں سے دور رہوں جنہیں دیکھ کر میری پلکوں میں ستارے چمکتے ہیں
بارھا کوشش کی کہ ان راہوں پہ نا جاؤں جہاں خزاں رسیدہ پتے مجھے اپنی وفا کی ناکامی کا احساس دلاتے ہیں اور جب ان پتوں پر چلتا ہوں تو ان کی چرچراہٹ مجھے زندگی زمین میں دھنستی ہوئی محسوس ہوتی ہے
بارھا کوشش کی کہ ذہن کے ان دریچوں کو بند کر دوں جہاں سے تیری یاد کے جھرونکے داخل ہو کر مجھے مضطرب کرتے ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ میں انسان ہوں ان سے کیسے پیچھا چھڑا سکوں گا آخر مجھے بھی تو محبت نے ہی جنم دیا تھا اور محبت ہی میری مِیراث میں شامل ہے
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید میں محبت کیلئے پیدا ہوا تھا اور محبت کیلئے ہی مر جاؤں گا پھر کیونکر یہ ممکن ہو کہ میں اس حقیقت سے آنکھیں بند کر لوں
بارھا کوشش کی تمہیں نا پکاروں
بارھا کوشش کی کہ تمہیں صدا نہ دوں
محبت نے کبھی مجھے تمہاری راہ سے ہٹنے نہیں دیا میں جب اپنا آخری کھلونا ٹوٹ جانے کے غم میں تمہیں دیکھنے سے گُریز کی سڑک پر عین درمیان میں بھاگ رہا تھا میں عجیب تھا اور میں نے اپنے کسی پرانے زخم سے ٹھوکر کھائی تھی میرے تمام کے تمام نئے زخم منہ کے بَل گرے اور بے اختیار میرے منہ سے تمہارا نام نکلا لیکن میں تمہیں کبھی بد دعا نہیں دے سکا شاید میں تم سے محبت کرتا رہوں گا چاہے میرے درد ہر بار مجھے بے سہارا تمہاری محبت کی راہ پر پھر سے کیوں نا چھوڑ جائیں
میرے پاس اب کھلونے نہیں ہیں بس کِرچیاں ہی کِرچیاں ہیں اور وہ کِرچیاں جو میرے پَوروں اور آنکھوں میں چُبھتی رہتی ہیں اور میں تمہاری محبت کی راہ پر چلتا رہتا ہوں
میں نے اک روز ہوا سے یہ کہا کہ رک جاو اور وہ دِھیرے سے ہنسی طَنز سے بھر پور ہنسی
میں نے اک بار سورج سے کہا کہ شام کے بعد کبھی اترو ہمارے گھر میں اور وہ خاموش رہا
میں نے اک بار نَگر والوں سے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو وہ لگے دیکھنے اک دوجے کو
میں نے اک بار کہا خود سے کہ اب چھوڑو بھی درد کی دھار پہ چلنے کی رَوِش چھوڑو بھی چھوڑو بھی
میں نے اک بار کہا خود سے بھی کہ چھوڑو بھی اب چھوڑو بھی
درمیانی کسی ویرانی میں اترا ہے تیرے ہجر کا چاند وَار لگنے کا گِلہ کیا کرنا آنکھ اک درد سے بُنتی ہے تو کتنے ہی نظر آتے ہیں پاک دامن میری چاہت کسی جنگل کو نکل جاتی تو اچھا ہوتا
جھاڑیاں اتنی بے رحم بھی نہیں ہوتیں کہ روحوں پر خَراشیں ڈالیں
درمیانی کسی ویرانی میں اٹکا ہوا دل لڑکھڑاتی ہوئی سانسوں سے دھکیلا نا گیا درمیانی کوئی ویرانی مخالف ہے میری، دیکھنا یہ ہے کہ اب روح کہاں جاتی ہے ہجر کا چاند تو ویسے بھی جنازوں پہ سَجا کرتا ہے
کِس نے ویران تمنا کا سفر دیکھا ہے، عمر بھر اُجڑے ہوئے لوگوں کی آنکھوں پر جلا کرتی ہے، عمر بھر بین کیا کرتی ہے
آخری رات بجھائی ہوئی بتیوں کی طرح، جس طرح بیتی ہوئی موت کی ویرانی ہو دل سے جاتی ہی نہیں بوجھ ہٹاتی ہی نہیں، میں نے ویران تمنا کا سفر دیکھا ہے
ہم نے کچھ روز کو مر جانا ہے ہم تو مہمان ہیں اور لوٹ کے گھر جانا ہے، بے بسی یہ ہے کہ مرضی سے نا آئے نا گئے
زندگی کیا ہے اذیت کا مسافر ہے کوئی اس کو ہر کام سے ڈر جانا ہے قافلہ ہے کوئی مجبوروں کا ہر پَڑاو پر بکھر جانا ہے آنسوؤں کا دریا ہے کوئی جسے چند لمحوں میں اتر جانا ہے
تم مجھے سوچ کر خاموش رہو
میں تمہیں سوچ کر خاموش رہوں گا
یہ عجب رشتہ ہے خاموشی کا
ایک دن آئے گا چپ چاپ بچھڑ جائیں گے
اپنی خاموشی کے ہاتھوں ہی اجڑ جائیں گے
میں نے سوچا تھا کہ تم چلے جاو گے سارے کے سارے چلے جاو گے اور مجھے دھوکہ دو گے، میں سمجھا تھا کہ تم بھول جاؤ گے سب بھول جاو گے تمام کی تمام وہ باتیں اِدھر سے اُدھر اور دَائیں سے بائیں ہر جگہ سے کُھرچ ڈالو گے
میں نے چاہا تھا تم میرے ہو جاو میرے اپنے سارے اور مکمل
لیکن تم نے مجھے ہمیشہ آدھے غم دیئے ہیں آدھے ادھورے غم اور کوئی کیا جانے آدھے غم مکمل غموں سے بھی کہیں زیادہ غمزدہ کر دینے والے ہوتے ہیں
تم نے مجھے کہا تھا کہ تم میرے دوست ہو پکے اور مخلص دوست، لیکن تم اور بھی بہت سارے لوگوں کے دوست تھے پکے اور مخلص دوست
تم نے مجھے کہا تھا تم مجھ سے محبت کرتے ہو سچی اور گہری محبت، لیکن تم بہت سے دوسرے لوگوں سے بھی محبت کرتے تھے سچی اور گہری محبت
تم نے مجھے کہا تھا تم مجھ سے وفا کرو گے ہمیشہ اور مرتے دم تک اور تم نے یہ بات باقی سب لوگوں سے بھی کہی تھی
تم نے مجھے ہمیشہ آدھی خوشی دی اور کوئی کیا جانے آدھی خوشی ایک مکمل خلا سے زیادہ خالی اور کھوکھلی ہوتی ہے
آدھے غم اور آدھی خوشیاں آدھے غم اور آدھی خوشیوں سے باہر آ جانے کی سوچیں تو اک وقفہ، اک رفتہ رفتہ خُو گَر ہونا دھوپ اور دھوپ کا کھیل اور آنکھوں سے دور دور تک دھوکا کَھٹک کَھٹک کے کَھٹکنا اور کَھٹکے چھاوں میں
چاہے بادل سورج کے نیچے آ جائیں یا سورج بادل کے نیچے
کَچا موسم کَچا موسم ہوتا ہے چاہے آپ کے پَیڑ پہ اترے چاہے سڑکوں پہ
لال رنگ کی ساری چیزیں شادی والی گڑیاوں کے لہنگے اور سہیلی جیسی کب ہوتی ہیں، ہنسنے کھیلنے والی چیزیں ہنسنے کھیلنے والی بھی کیا ہوتی ہیں؟
آدھے غم اور آدھی خوشیاں بلکہ غم ہی غم اور باقی آدھا جھوٹ
Comments
Post a Comment