کاش !

 کاش !


کاش پھر سے وہ دن لوٹ آئے

جب پہلی بار میں نے تم کو دیکھا تھا

تم سفید رنگ کے سوٹ میں ملبوس بلکل پری لگ رہی تھی

 


تم نے سر پر جاسمین کے پھولوں کا جو تاج پہن رکھا تھا 

اس کی خوشبو میں آج بھی محسوس کرتا ہوں 

تمہارا وہ مجھے دیکھ کر شرمانا اور اپنی نیلی جھیل سی آنکھوں کو جھکا لینا آج بھی میرے دل میں خوشیاں بکھیر دیتا ہے 

کتنا خوبصورت تھا وہ پل 

اس لمحے سمے رک گیا تھا 

بہار نے میرے چارو اُور پھول بکھیر دئیے تھے 

ڈوبتے سورج کی ڈھلتی کرنوں نے ایک عجیب سا سماں باندھا تھا 

ایسے جیسے سورج کی کرنیں ڈھلنے کی بجائے طلوع ہو رہی ہوں 

وہ لمحہ جو میری زندگی کا خوبصورت لمحہ تھا 

کاش پھر سے لوٹ آتا 

مگر وقت بھلا کب پلٹتا ہے 

اور جانے والے بھلا کب لوٹتے ہیں 

کاش تو پھر کاش ہی رہتا ہے نا 


(طاھر نیکوکارہ کی ڈائری کی چند سطریں)

Comments